آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ نائجیریا کی اسلامی مزاحمتی تحریک کی رکن محترمہ بلقیس کبیر سعید نے ’’رشد پس از سانحہ‘‘(حادثے کے بعد رشد و نمو) کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں شیخ زکزاکی کے سیاسی و سماجی نظریات اور نائجیریا کی اسلامی مزاحمتی تحریک میں سرگرمیوں کے حوالے سے گفتگو فرمائی،واضح رہے کہ یہ کانفرنس امام رضا(ع) یونیورسٹی کے نفسیات اور مشاورتی مرکز کی کاوشوں سے خواتین یونٹ میں منعقد کی گئی جس میں مشہور مصنفہ محترمہ فاطمہ دوستکامی اور کتاب ’’دا‘‘ کی لکھاری محترمہ سیدہ اعظم حسینی نے خصوصی شرکت فرمائی ۔
خاندانی بنیادیں اور مزاحمتی تحریک کا قیام
انہوں نے بتایا کہ وہ ایک مذہبی اور شیعہ خاندان میں پیدا ہوئیں اور یہ خاندانی شیعہ ہونا ہی شہری حقوق کے حصول کی جدوجہد کا باعث بنا۔
انہوں نے مزید یہ کہا کہ نائجیریا کی اسلامی مزاحمتی تحریک شیخ زکزاکی کی قیادت میں اس ملک کی عوام اور مسلمانوں کے حقوق کے حصول کے مقصد سے قائم کی گئی ، یہ تحریک شیخ زکزاکی کی طالب علمی کے زمانے سے شروع ہوئی اور انہوں نے طلباء کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے سماجی ، سیاسی اور ثقافتی حقوق کے بارے میں شعور دیا ۔
قرآن کے بارے میں شیخ زکزاکی کی گہری نظر
محترمہ بلقیس کبیر سعید نے زور دیا کہ شیخ زکزاکی کا مسلمانوں کے سیاسی، سماجی حقوق سے متعلق قرآن سے اخذ کردہ نظریہ بہت دقیق ہے ان کی سرگرمیوں کا اصلی محور خود شناسی اور انسانی حقوق کی شناخت ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ شیخ زکزاکی کی سرگرمیوں کی نائجیرین حکومت نے شدید مخالفت کی اور حتی انہیں نو سال تک قید میں ڈالا گیا تاکہ ان کی آواز اور تحریک کو دبایا جا سکے ۔
شیخ زکزاکی نے ہمیشہ اس بات پر تاکید کی کہ قوانین کو قرآن اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ترتیب دیا جائے تاکہ حقیقی عدل و انصاف برقرار ہو ۔
مشکلات کے بعد رشد اور ترقی
کانفرنس کو جاری رکھتے ہوئے کتاب’’ادا‘‘ کی مصنفہ سیدہ اعظم حسینی نے بلقیس کبیر سعید کی مشکلات کو ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نائجیرین فوج کے ایک حملے میں خانم کبیر سعید زخمی ہو گئی اور اسی حالت میں تین دن تک شیخ زکزاکی کے گھر میں رہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ خانم بلقیس کبیر بہت سختیاں اور مشکلات برداشت کرنے کے بعد ایران میں آئیں اور یہاں پر پناہ لی، ان کے شوہر انہیں واقعات میں شہید ہوگئے لیکن ان تمام مصیبتوں کے باوجود گذشتہ چھ سالوں میں انہوں نے بچوں کی تربیت کے سبجیکٹ میں علمی و فکری لحاظ سے کافی ترقی کی ہے ۔
آخر میں بلقیس کبیر سعید نے کہا کہ انسان سختیوں اور تلخ واقعات کے بعد اپنے لئے دو راستے چن سکتا ہے ایک افسردگی اورایک رشد و نمو اور ترقی کا راستہ اور یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب انسان واقعات کے بعد کے چیلنجز کے مفہوم و معنی کو جانتا ہوں اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو۔